سنا تھا ہم نے لوگوں سے

Ù…Ø+بت چیز ایسی ہے

چھپائے چھپ نہیں سکتی

یہ آنکھوں سے چمکتی ہے

یہ چہروں پر دمکتی ہے

یہ لہجوں میں جھلکتی ہے

دلوں تک کو گُھلاتی ہے

لہو ایندھن بناتی ہے

اگر سچ ہے . . . . . تو پھر آخر ہمیں

اس ذاتِ Ø+Ù‚ سے یہ بھلا کیسی Ù…Ø+بت ہے؟

نہ آنکھوں سے جھلکتی ہے

نہ چہروں پر ٹپکتی ہے

نہ لہجوں میں سُلگتی ہے

دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے

کلیجے مونہہ کو لاتی ہے نہ فاقوں سے ستاتی ہے

نہ خاک آلود کرتی ہے نہ کانٹوں پر چلاتی ہے

نہ یہ مجنوں بناتی ہے

عجب ایسی Ù…Ø+بت ہے فقط دعویٰ سُجھاتی ہے

نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے

نہ غارِ ثور میں چُپ کے سکینت بن کے چھاتی ہے

Ø+را تک Ù„Û’ بھی جائے. . .قُدس سے آنکھیں چُراتی ہے

ہم اپنے دعوٰئےØ+Ù‚ ِ Ù…Ø+بت پر ہوئے نادم

تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر

کہیں سے بجلیاں کُوندیں

صدا آئی

ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا

وہاں خود جان جاؤ گے

!!!Ù…Ø+بت Ú©ÛŒ Ø+قیقت Ú©Ùˆ